There are various procedures to get the property transferred on legal heirs name after the death of property owner. The Procedure given in Urdu below to be adopted for Rural areas. For Urban areas, each society has its own procedure laid out on its website. Like CDA, DHA, Bahria have given the procedure on their websites.
Important Note
Before proceeding to initiate any process of transfer of property to legal heirs please first check the authority of the property allotment certificate. Go to that housing authority office and ask for the exact requirements of documents and from where to get those documents.

If the immovable property is located in the registered housing schemes i.e. Bahria or DHA then they have their own land record kept in their head office. Bring allotment letter, FRC(Family Registration Certificate from NADRA), and attested copy of legal heir certificate. They will transfer that property in a couple of days and will issue you a new allotment letter.
However, if the deceased property is located in the city areas whose record is not computerized then you need to visit the concerned Patwar circle and give him an attested copy. he will initiate a procedure that involves an application to tehsildar and then a recording of statements.
Those areas whose land record is computerized they can visit concerned Arazi record Center. Get a token wait for their turn. Give them an attested copy of the legal heirship certificate and record statements before ADLR.
Inheritance of property in Pakistan involves the automatic devolution of property rights to the legal heirs at the time of the owner’s death. So, let’s take a look at the key highlights of inheritance law governing the phenomena of change of ownership of properties in Pakistan.
In the light of the Transfer of Property Act and Islamic law, irrespective of secs, there is no concept of ‘Will’ as a result of which, all shares are distributed to legal heirs during the process of succession.
The distribution of shares depends on the closeness of devisee to the deceased person. For example, blood relations usually have the closest ties. It might not be possible for us to summarize on all of the scenarios regarding the distribution of shares here as this phenomenon has many angles and aspects varying from case to case.
Any property can be donated by the owner during their lifetime. They are free to give it to someone as a gift or charity to an individual, welfare trust, or humanitarian organization. Once the property is donated, no one will have the right to challenge such a decision even after the death of the donor.
Inheritance Certificate
The process of transfer of property in Pakistan after someone’s death is incomplete without an inheritance certificate, locally known as the wirasatnama. Once the legal heirs have been issued with inheritance certificates, only then, they will be allowed to transfer immovable property to their name.
What is Inheritance Certificate?
The inheritance certificate, or wirasatnama, is a certified and registered document issued by the civil court. It is one of the most crucial requisitions in the event of an individual’s death in order to transfer the rights of the properties under their ownership to someone else.
It is also a mandatory requirement of legal authorities as well as housing schemes to check if the legal heirs have an inheritance certificate or not to further continue with the process of contracts and legal agreements.
How can you Acquire an Inheritance Certificate?
The inheritance certificate is not only important for property transfer in Pakistan in someone else’s name, but it also plays a key role in establishing and safeguarding the heir’s property rights according to the Transfer of Property Act. To acquire a wirasatnama, there are certain documents that are required to be submitted to the civil court.
Let’s take a look at the list of those documents:
- Deceased Person’s Death certificate
- CNIC of the Deceased
- CNICs of the Heirs
- Public Advertisement and Issued Legal Notices
- Statement of Heir(s)
- One independent Witness
- Mutation/Registry of Immovable Property
The process of acquiring the inheritance certificate involves a few simple steps. First of all, you need to take help from a professional lawyer who will prepare a written plaint mentioning every important detail about legal heir and the immovable property left behind by the deceased.
Around four hearing sessions are carried out in the civil court based on recording of evidence, statements and arguments of the heirs. These court sessions are mandatory for the complete satisfaction of the civil court only after which the inheritance certificate is issued to the legal heir.
*Note: After the issuance of the Wirasatnama, the heirs can also apply to get an original copy of the court’s official order.
وراثتی انتقال کروانے کا طریقہ ۔
فوت ہونے والے یعنی متوفی کے وارثان میں سے کوئی بندہ متوفی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ یونین کونسل سے بنوائے گا۔
۔نادرا سے ایف آر سی سرٹیفکیٹ جاری کروانا ہو گا.
۔دو عدد بیان حلفی ایک وارثان میں کسی کا اور ایک متعلقہ گاؤں کے نمبردار کا بیان حلفی میں تمام زندہ وارثان کو ظاہر کرنا ہو گا.
۔خبریں / جنگ / ایکپسریس اخباروں میں ڈے کسی ایک میں اشتہار دینا ہو گا.
۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ ،ایف آر سی سرٹیفکیٹ ،بیان حلفی، اخبار اشتہار لے کر متعلقہ پٹواری کے پاس جانا ہو گا پٹواری آپ کے ایف آر سی سرٹیفکیٹ اور دیگر کاغذات کے مطابق شجرہ تیار کر دے گا۔
۔شجرہ تیار ہونے کے بعد جناب تحصیلدار کی عدالت میں پیش ہونا ہو گا جس میں تحصیلدار کے سامنے کم از کم وارثان میں سے ایک بندے کا حاضر ہونا ضروری ہے ساتھ نمبردار اور ایک پتی دار یعنی گواہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ شجرہ بلکل ٹھیک ہے۔
شجرہ کی تصدیق کے بعد تحصیلدار صاحب فیصلہ لکھے گا جس میں شرعی حصص کے مطابق تمام وارثان کو شرعی حصہ دے گا اور اپنے دستخط کر دے گا.
۔ پٹواری شجرہ کے مطابق انتقال درج کر دے گا اور تحصیلدار صاحب کے نکالے ہوے حصص کے مطابق رقبہ تقسیم کر دے گا اور تحصیلدار اس انتقال کو منظور کر دے گا.
Hits: 5
The Federal Board of Revenue (FBR) on Wednesday notified fresh and revised valuation of immovable properties for various cities of the country to bring the declared prices at par with the fair market value.
The FBR issued valuation and revaluation of immovable properties for 16 cities of the country. These cities included Islamabad; Lahore; Karachi;Abbottabad; Attock, Bhawalnagar; Bhawalpur; Chakwal; Toba Tek Singh; D I Khan; Sukkur; Sialkot; Sheikhupura; Sahiwal; Faisalabad; Rawalpindi; Rahim Yar Khan; Quetta; Peshawar; and Norowal.
Islamabad
FBR VALUATION TABLE ISLAMABAD 1-12-21
Lahore
FBR VALUATION TABLE Lahore 1-12-21
Karachi
FBR EVALUATION TABLE KARACHI 1-12-21
Rawalpindi
FBR VALUATION TABLE Rwalpindi 1-12-21
Hits: 554
رصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام وانصرام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبراعظم اور برطانوی راج سے لے کر پنجاب میں موجودہ پٹواری نظام تک پھیلی ہوئی ہے
انگریز نے سنہ 1860 میں اس مںصوبے پر کام شروع کیا اور سنہ 1900 میں پہلا بندوبست اراضی ہوا۔ سنہ 1940 کے بندوبست میں اس نظام کو صحیح معنوں میں جامع اور موثر طریقے سے نافذ کیا گیا۔
آج بھی ہمارے ملک میں بنیادی طورپر اصل ریکارڈ سنہ 1939-40 ہی کا چل رہا ہے۔
جب برطانوی حکومت نے محکمہ مال کا آغاز کیا تو 40 کتابیں تیار کی گئیں۔
سب سے پہلے
‘”شرط واجب العرض”
نامی کتاب وجود میں آئی، جو شاید سب سے اہم دستاویز بھی کہلائی جا سکتی ہے۔ اس دستاویز میں ہر گاؤں کو ‘ریونیو سٹیٹ’ قرار دے کر اس کی مکمل تفصیل درج کی گئی جس میں گاؤں کے نام کی وجہ، اس کے پہلے آباد کرنے والوں کے نام، قومیت، عادات و خصائل، ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل، رسم و رواج، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے معاملات طے کرنے جیسے قوانین کا تذکرہ، زمینداروں، زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ دستکاروں، حتیٰ کہ پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض، انھیں فصلوں کی کٹائی کے وقت دی جانے والی شرح اجناس کی ادائیگی (جس کے بدلے میں وہ اپنے اپنے ہنر سے گاؤں بھرکے لیے خدمات بجا لاتے تھے)۔ اس کے علاوہ نمبردار اور چوکیدارکے فرائض اور ذمہ داریاں تک طے ہوئیں۔
گویا ہر گاؤں کے جملہ معاملات کے لیے ‘شرط واجب العرض’ وجود میں لائی گئی جو آج بھی ریونیو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
‘روزنامچہ ہدایاتی’ میں پٹواری اعلیٰ افسران کی طرف سے دی جانے والی ہدایات درج کرتا ہے۔ ‘روزنامچہ واقعاتی’ میں پٹواری ہر روز عیسوی، دیسی اور اسلامی تاریخ درج کرتا ہے
اس کے نیچے وہ اپنی دن بھر کی کارگزاری لکھتا ہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ وہ گرداور اور اعلیٰ افسران کی طرف سے روزنامچہ واقعاتی پر ان کے دستخط کرواتا ہے۔
ایک دستاویز ‘روزنامچہ کارگزاری’ بھی پٹواری تحریر کرتا ہے۔ وہ سارادن جو کام کرتا ہے اس کی ایک نقل تحصیل آفس میں دفتر قانون گو میں جمع کراتا ہے اور ‘روزنامچہ پڑتال’ پر اعلیٰ افسران اپنے ریمارکس لکھتے ہیں۔
برطانوی راج کے دوران جب محکمہ مال کا آغاز ہوا تو حیرت انگیز طریقے سے زمین کے چپے چپے کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگاؤں، کرنال سے شروع ہونے والی بغیر مشینری اورجدید آلات کے زمین کی پیمائش ضلع اٹک، دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں آنے والے ندی، نالے، دریا، سڑکیں، راستے، جنگل، پہاڑ، کھائیاں اورآبادیوں وغیرہ کا بھی اندراج ہوا۔
ہر گاؤں، شہر کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے جس بھی شکل میں موجود تھے ان کو نمبرات خسرہ، کیلہ وغیرہ الاٹ کیے گئے۔
ہر نمبر کے گرد چاروں طرف پیمائش’کرم’ (ساڑھے پانچ فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لیے ہر گاؤں میں ‘فیلڈ بک’ تیار کی گئی۔
جب حد موضع (ریونیو سٹیٹ) قائم ہو گئی تو اس میں نمبرات خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر کی چہار اطراف سے جو کرم کے حساب سے زمین برآمد ہوئی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا کے تحت وضع کر کے اندراج ہوا۔ فیلڈ بک میں ملکیتی نمبرات خسرہ کے علاوہ سڑکوں، عام راستوں، بن، روہڑ، وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کی گئی۔
اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام افسران بالا نے کیا۔ اس کا نقشہ آج بھی متعلقہ تحصیل اور ضلع کے محافظ خانوں میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری گاؤں کا نقشہ (لَٹھا) تیار کرتا ہے۔ جب نیا بندوبست ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
اس پیمائش کے بعد ہر ‘ریونیو سٹیٹ’ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام بقدر حصہ درج کیے گئے۔ ان لوگوں کا شجرہِ نسب تیار کیا گیا اورجس حد تک پشت مالکان کے نام معلوم ہو سکے، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا۔
یہ دستاویز آج بھی اتنی موثر ہے کہ آپ لاکھ اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کریں مگر ایک ذرا تحصیل یا ضلعی محفظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے یہ ریکارڈ آپ کے دادا کے پردادا کی بھی قوم اور کسب نکال کر دکھا دے گا۔
جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے ان کے وارثان کے نام شجرہ کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثت کے مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں۔
شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت ایک اہم ترین کتاب میں مرتب کیا جاتا تھا جسے پہلے ‘جمع بندی’ کہتے ہیں اور اب اس کا نام ‘رجسٹرحقداران زمیں’ رکھا گیا ہے۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام، نمبر کھیوٹ، کتھونی، خسرہ ، کیلہ، مربع، اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوتا ہے۔
ہر چار سال بعد پٹواری اس دوران منظور ہونے والے انتقالات میعہ، رہن، ہبہ، تبادلہ، وراثت وغیرہ کا عمل اور زمین کی تبدیلی حیثیت کا اندراج، نیز گذشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت و حصہ وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹرحقداران زمین تیار کرتا ہے اور اس کی ایک نقل محافظ خانہ میں جمع کراتا ہے۔ رجسٹر حقداران زمین کی تیاری کا انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ رائج ہے۔
اس کی تیاری میں جہاں پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے، وہاں گرداور اور تحصیلدار سو فیصد جانچ پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان افسران کا گاؤں میں جاکر مالکان کی موجودگی میں ان اندراجات کو پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست تیارکرنا ضروری ہے۔
آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ یہ دستاویز اب غلطیوں سے پاک ہے۔
رجسٹرحقداران زمین کے ساتھ ‘رجسٹر گردواری’ بھی پٹواری تیار کرتا ہے۔ مارچ میں وہ فصل ربیعہ اور ستمبر میں فصل خریف کے مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ پر جا کر مالکان اور کاشتکاران کی موجودگی میں فصل اور مالک کا نام درج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پر پٹواری اس کتاب کے آخر میں درج کرتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے اور کتنی برآمد ہوئی۔
اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھی ارسال کی جاتی ہے جس سے صوبے اور ملک کی آئندہ پیداوار کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ یہ محکمہ مال کی ایک اہم دستاویز ہے جس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر جا کر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
‘رجسٹرانتقالات’ میں پٹواری جائیداد منتقلہ کا اندراج کرتا ہے اور گرداور تصدیقی نوٹ لکھتا ہے۔
کاغذات مال متذکرہ کی کئی اور کتابیں بھی ہوتی ہیں، جن سے ریکارڈ آپس میں مطابقت کھاتا ہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ پٹواری کے پاس ایک ‘لال کتاب ‘ بھی ہوتی ہے جس میں گاؤں کے جملہ کوائف درج ہوتے ہیں، جیسے اس گاؤں یا شہر کا کُل رقبہ، مزروعہ کاشتہ، غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ، مردم شماری کا اندراج، مال شماری، جس میں ہر قسم کے مویشی اور ان کی تعداد، نر، مادہ، مرغیاں، گدھے، گھوڑے، بیل، گائیں، بچھڑے وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے
Hits: 82
زمین کے کھاتوں میں کھیوٹ، کھتونی، خسرہ نمبر اور دیگر اصلاحات کیا ہیں؟ جانیے اس تحریر میں۔
موضع :
یہ ایک بڑا یونٹ ہوتا ہے جو عموماَ ایک بڑے گاؤں یا ایک سے زیادہ چھوٹے گاؤں کو ملا کر بنایا جاتا ہے۔ موضع کا نام اس گاؤں یا ایریا کے نام پر ہی درج ہوتا ہے ۔
کھیوٹ نمبر:
جب موضع بن جاتا ہے تو اس میں بہت سارے لوگوں اور خاندانوں کی زمین شامل ہوتی ہے اس کی تقسیم مزید آسان بنانے کے لیے کھیوٹ نمبر دے دیے جاتے ہیں، مثلا یہ ایک سو ایکڑ ایک خاندان کے پاس ہے اسے ایک نمبر دے دیا کہ فلاں موضع کا یہ کھیوٹ نمبر ہے جو فلاں خاندان کے ان ان حصہ داروں کے پاس ہے۔ یا مختلف خاندانوں یا لوگوں کی زمین کو ملا کر بھی ایک کھیوٹ بنایا جاتا ہے۔ اس کا نمبر تبدیل ہو سکتا ہے جب کوئی زمین فروخت کرتا ہے یا ایسی کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو آپ کے کھیوٹ کا نمبر بدل جاتا ہے۔
کھتونی نمبر:
موضع بھی بن گیا، اس میں کھیوٹ نمبر بھی لگ گئے اب کھیوٹ میں بہت سارے مالکان ہیں کسی کے پاس پانچ ایکڑ ہے کسی کے پاس دس اور کسی کے پاس دو ایکڑ تو ان کو کیسے پہچانے گے کہ اس کھیوٹ میں کونسے بندے کی کتنی زمین ہے تو اس کے لیے ہر حصہ دار کو ایک کھتونی نمبر لگا دیا جاتا ہے۔ مثلا کھیوٹ نمبر 1 میں دس ایکڑ زمین ہے اور دو مالک ہیں پانچ پانچ ایکڑ کے تو ان دونوں کو الگ الگ نمبر دے دیا جائے گا پانچ پانچ ایکڑ کا جسے کھتونی نمبر کہتے ہیں۔ یہ نمبر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے جب کوئی اپنے حصے سے فروخت کر دے کسی کو یا ایسی کوئی دوسری تبدیلی ہو۔
خسرہ نمبر:
اب ایک کھتونی میں جو پانچ ایکڑ تھے (جو ہم نے مثال میں لیے پانچ ایکڑ، حقیقت میں ان کی تعداد جو بھی ہو گی) ہر ایکڑ کو ایک خاص نمبر دیا جاتا ہے جو خسرہ نمبر کہلا تا ہے۔ یہ نمبر کبھی تبدیل نہیں ہوتا چاہے کوئی فروخت کرے مگر کھیت کا خسرہ نمبر ایک ہی رہے گا۔ اور اس میں کھیت کی چاروں طرف سے پیمائش بھی لکھی ہوتی ہے کہ اس خسرہ نمبر کا جو کھیت ہے اس کی لمبائی چوڑائی وغیرہ کیا ہے۔
( مساوی: (شجرہ
یہ موضع کا نقشہ ہوتا ہے، کہاں کس کا کھیت ہے کہاں راستہ ہے کہاں کیا ہے سب اس میں ہوتا ہے۔ پٹواری کے پاس یہ نقشہ ایک کپڑے پر بنا ہوتا ہے جسے لٹھا بھی کہا جاتا ہے۔
جمعبندی:
اس میں ایک موضع کے کسی کھیوٹ کی کسی کھتونی کے کس خسرہ میں کتنے مالک ہیں سب کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ اس میں یہ بھی درج ہوتا ہے کہ مالک کون ہے اور زمین کاشت کون کر رہا ہے ٹھیکہ پر یا کیسے۔ زمین کی فرد بھی اسی رجسٹر کی تفصیل کی بنیاد پر جاری ہوتی ہے۔
گردوری:
آپ جس رقبہ کے مالک ہیں یا مزارع ہیں اس رقبہ میں کیا کاشت ہوتا ہے یا کیا کاشت کیا ہوا ہے اس کی
تفصیل بھی پٹواری درج کرتا ہے اسے گردوری کہتے ہیں۔
اہم نوٹ: زمین خریدتے وقت ہمیشہ خسرہ نمبر کی فرد کی بنیاد پر زمین خریدیں۔ مثلا فرض کریں ایک بندہ دو ایکڑ کا مالک ہے اس کا کھیوٹ نمبر 1 اور اس کے دو ایکڑ کھیوٹ نمبر 1 کی الگ الگ کھتونی نمبر 5 خسرہ نمبر 50 اوردوسرا ایکڑ کھتونی نمبر 10 میں خسرہ نمبر 100 ہیں۔ آپ اس سے ایک ایکڑ خریدنا چاہتے ہیں اور وہ آپ جو پسند کرتے ہیں اس کا خسرہ نمبر 50 ہے مگر اسے فرد اس 50 نمبر خسرہ کی نہیں بلکہ پوری رقبے کی کھیوٹ سے ملتی ہے جس میں وہ آپ کے نام ایک ایکڑ کروا دیتا ہے تو اب قانوناَ آپ اس کے دونوں ایک میں خسرہ نمبر 50 اور خسرہ نمبر 100 میں آدھے آدھے ایکڑ کے مالک بن جائیں گے اور اگر خسرہ نمبر 50فرد ہی آپ کو دے گا تو اس کی بنیاد پر وہی ایکڑ پورا آپ کے نام لگے گا۔ بیشک وہ آپ کو آپ کا پسند کیا ہوا خسرہ نمبر 50 ہی کاشت کے لیے دے رہا ہو مگر مستقبل میں آپ کے بچوں میں جھگڑا ہو سکتا ہے کہ آپ کے یا اس کے بچے کہیں آپ کا آدھا ایکڑ یہاں بول رہا ہے یہاں جاؤ ہمارا وہاں ہے ہم وہاں جائیں گے وغیرہ۔ یہ تو دو ایکڑ کی مثال تھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی زیادہ ایکڑ کے مالک سے زمین خرید لیں تو بعد میں وہ کہتا ہے کہ میں نے یہ ایکڑ نہیں بلکہ کوئی دوسرا دیا تھا لہذا اسے کاشت کرو جا کر وہ چاہے بنجر ہو۔ اس لیے زمین لینے سے پہلے تسلی کر لیا کریں۔
Hits: 198