Skip to content
Home » Construction services » Construction » Read this before construction of House in Pakistan

Read this before construction of House in Pakistan

اپنا مکان تعمیر کرنے سے پہلے یہ مضمون ضرور پڑھیں

گھروں کی لاگت

اکثر دوست گھروں کی لاگت کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں تو انہیں بتا دوں۔

ایک رہائشی مرلے میں آجکل عموما 250 اسکوائر فٹ ہوتے ہیں، جبکہ جب گھر بنایا جائے تو یہ سارا کورڈ نہیں ہوتا بلکہ قریب 20 اسکوائر فٹ فی مرلہ اوپن چھوڑ دیا جاتا ہے (ہوا کی کراسنگ، روشنی یا کسی بھی اور وجہ سے) یعنی پانچ مرلے کا پلاٹ ہو تو اسکا کورڈ ایریا بنے گا 1400 اسکوائر فٹ (یاد رہے یہ کورڈ ایریا ممٹی سمیت بتایا گیا یے) اور یہ ریٹ صرف گرائونڈ فلور کا ہے۔ اس سے اوپر جتنی بھی منزلیں بنائیں گے اسٹینڈرڈ کے حساب سے دو سو روپے فی اسکوائر فٹ مزید کم کرلیں یعنی اگر گرائونڈ فلور 2000 میں بن رہا ہے تو اسکے اوپر والی منزل 1800 میں بن جائئگی۔

تعمیری لاگت نکالنے کا آسان طریقہ ہے۔

صرف گرے اسٹرکچر بنانا ہو تو کورڈ ایریا کو 1100 روپے سے ضرب دے لیں۔

اور اگر بی کلاس فنشنگ کرنی ہو تو 1500.

اے کلاس کرنی ہو تو 2000 روپے

جبکہ اے ون کرنی ہو تو 2500 روپے فی اسکوائر فٹ۔

اب اگر یہی کام آپ کسی بمعہ مٹیریل ٹھیکیدار سے کرا رہے ہیں تو دس سے پندرہ فیصد اسکا منافع بھی جمع کرلیں۔

کورڈ ایریا کا مطلب ہوتا ہے پلاٹ کا وہ حصہ جس پر چھت آئیگی یعنی گھر میں موجود اوپن جگہ وغیرہ کور ایریا میں شمار نہیں ہوتی۔

یہ ریٹس نارمل رہائشی گھر کے لیے ہیں جو ماسوائے پہاڑی علاقے کے پاکستان کے ہر علاقے میں کم و بیش تبدیلی کے ساتھ بہ آسانی اپلائی ہوجاتے ہیں۔

گرے اسٹرکچر سے مراد دیواریں کھڑی کرکے چھت ڈالنا۔

بی کلاس کنسٹرکشن سے مراد ہے سادے سیمنٹڈ فرش، عام سی کھڑکیاں دروازے، نو سیلنگ، عام اور سستے باتھ روم اسیسریز وغیرہ۔

اے کلاس کنسٹرکشن میں سستی لیکن معیاری ماربل، معیاری دروازے کھڑکیاں، اچھی باتھ روم اسیسریز، سادہ سیلنگ وغیرہ۔

اے پلس میں خوبصورت امپورٹڈ فلور ٹائل، اچھے پائیدار دروازے کھڑکیاں، مکمل سیلنگ، برانڈڈ باتھ روم اسسیسریز وغیرہ

کیا نقشہ بنوانا ضروری ہے ؟؟

ہمارے ہاں عموما ایک فاش غلطی کی جاتی ہے کہ جب ہم گھر وغیرہ بنانا شروع کرتے ہیں تو اسکا پراپر نقشہ نہیں بنواتے اور دیسی انداز میں خود سے کہ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنا بڑا کمرہ بنا لو ادھر لیٹرین اس کونے پر کچن۔

یہ طریقہ کار بہت غلط ہے اور اس کا آگے چل کر خاصا نقصان ہوتا یے لہذا آپ جب بھی اپنے گھر یا کمرشل بلڈنگ کو بنانے کا ارادہ کریں تو کسی بھی مناسب انجینیئر سے اسکا نقشہ ضرور بنوائیں تاکہ آپکی جگہ کا آپکی ضروریات کے مطابق بھرپور استعمال کیا جاسکے اور کوئی بھی جگہ ضائع نہ ہوتی ہو۔

اب بات آتی ہے کہ نقشہ کتنی قسم کا ہوتا ہے تو یاد رکھیں نقشہ تین قسم کا ہوتا ہے، ہائوس پلان، ایلیویشن اور اسٹرکچر۔

ہائوس پلان سے مراد ہے کہ آپکے منتخب کردہ انجینیئر صاحب آپکے پلاٹ کی پیمائش کے مطابق آپکی ضروریات اور پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے کمرے, باتھ روم، کچن، ڈرائنگ روم کارپورچ وغیرہ ڈیزان کریں گے کہ پلاٹ کی کونسی طرف کتنے سائز کا کمرہ ہوگا، اگر آپکی ڈیمانڈ ہے کہ اٹیچ باتھ روم ضروری یے تو وہ کہاں بنے گا اور اسکا سائز کیا ہوگا، کچن کا سائز وغیرہ وغیرہ۔۔۔

یاد رہے ہائوس پلان ہی میں اگر آپکے پلاٹ بد گنیا ہو یعنی کون ہو تو اسکو بھی آپکے منتخب کردہ انجینیئر صاحب اس طرح سے ڈیزائن کریں گے کہ اسکا کم سے کم نقصان ہو۔

نقشے کی دوسری قسم ہے ایلیویشن جسے عام زبان میں فرنٹ ویو کہا جاتا ہے، اسکا بنوانا آپکی اپنی مرضی ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکا گھر علاقے کے باقی تمام گھروں میں ممتاز نظر آئے اور آپکی حسب منشاء خوبصورت ہو تو کرائیں ورنہ بیشک نہ کرائیں۔

نقشے کی تیسری قسم ہے اسٹرکچر ڈرائنگ، پاکستان میں اس ڈرائنگ کا تصور صرف بہت بڑے پراجیکٹس مثلا بہت بڑے شادی ہال, ملٹی اسٹوری بلڈنگز، سرکاری بلڈنگز یا بحریہ، ڈی ایچ اے جیسی ہائوسنگ سوسائٹیز وغیرہ میں ہے ورنہ عام گھروں یا پلازوں میں اسٹرکچر ڈیزائن نہیں کرایا جاتا اور ٹھیکیدار صاحب اپنی مرضی سے ہی کام کرلیتے ہیں، اس نقشے میں بلڈنگ یا گھر میں استعمال ہونے والا سریا ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ سریا کتنا موٹا ہوگا وہ کتنے کتنے فاصلے پر ڈلے گا وغیرہ۔

بات کا اختتام اس مشورے کے ساتھ کروں گا کہ گھر زندگی میں ایک ہی بار بنتا ہے لہذا “ہائوس پلان” والا نقشہ ضرور بنوائیں تاکہ متعلقہ انجینیئر صاحب آپکے پلاٹ، آپکی ضروریات اور آپکی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے آپکو بہترین سیٹنگ و ترتیب بنا کر دیں۔

ٹھیکیدار ہائر کرنا کیوں ضروری ہے۔

ہمارے ایک عموما ایک سوچ پائی جاتی ہے کہ ٹھیکیدار تو لوٹتے ہیں اور جتنا ہوسکے ٹھیکیداد ہائر کرنے کے بجائے کام خود کرنا چاہیئے۔

اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اور ٹھیکیداری میں بھی ہیں لیکن سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا انتہائی نامناسب کام ہے۔ (اچھا بلڈنگ ٹھیکیدار ہائر کرنے کا آسان طریقہ ہے کہ آپ اپنے علاقے میں موجود کم از ہم چار پانچ ٹھیکیدار صاحبان سے اپنا کام بتا کر ریٹس لیں اور پھر جو مناسب لگے اسے کہیں جناب آپ نے آج تک جو کوئی پراجیکٹ کیا ہے اسکا وزٹ کرادیں، انکا کیا کام دیکھ کر آپکو کافی حد تک انکے کام کے معیار کت بابت معلوم ہوجائیگا اور ہوسکے تو اس پراجیکٹ کے مالک سے بھی ملیے اور پوچھیں کہ آپکے ٹھیکیدار صاحب پیسوں کے لین دین اور دیگر معاملات میں کیسے ہیں اب اگر ان ٹھیکیدار صاحب نے پراجیکٹ مالک کو بنا تنگ کیے اچھا کام کیا ہوگا تو مالک خود انکی تعریف کریں گے، یہاں یہ بات ہرگز مت بھولیے گا کہ ضروری نہیں کہ جو بلڈنگ ٹھیکیدار سستا ہوگا وہی اچھا ہوگا ?)

بلڈنگ کنسٹرکشن کرواتے وقت ٹھیکیدار ہائر کر لیا جائے تو بہت سے مسائل، سردردی اور وقت کے قیاع سے بچا جا سکتا ہے جبکہ ٹھیکیدار سے کام کروانے کی صورت میں کام کا معیار بھی بہتر ہوجاتا ہے اور ٹھیکیدار آپ سے انہی چیزوں کے ہی پیسے چارج کرتا ہے جو اسکا حق ہے ?۔

عام کلائنٹ کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ آپ نے کبھی کبھار یا زندگی میں فقط ایک بار گھر بنانا ہے جبکہ ٹھیکیدار صاحب یہ کام روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں لہذا وہ آپ سے بہتر جانتے ہیں کہ کام کاج میں موجود تکنیکی مسائل کو کیسے حل کرنا ہے، مختلف شعبوں کی لیبر سے کیسے کام لینا ہے، کونسے شعبے کے لوگ کہاں سے ملیں گے جو مناسب پیسوں میں معیاری کام کرتے ہوں، نیز یاد رکھیئے ایک چھوٹا سا گھر بنانے کے لیے بھی بلڈنگ ٹھکیدار کے پاس اپنی ذاتی پچاس ہزار روپے کے مختلف اوزار و چیزیں ہوتی ہیں (مثلا، بیلچے، کڑاہیاں، پھٹے، بانس، ریڑھیاں وغیرہ)۔

اب ایک آدمی جس کا بلڈنگ کنسٹرکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ ایک کمرہ گنیا کیسے کیا جاتا ہے، شٹرنگ، سریے، چنائی، پلستر وغیرہ کے کاموں میں کیا کیا باریکیاں ہوتی ہیں وہ کیسے معیاری کام کروا سکے گا ؟

اور بلڈنگ کنسٹرکشن میں موجود مختلف چھوٹے ٹھیکیداروں اور مستری مزدوروں کو کیسے سنبھال سکے گا ؟

اب اگر یہ کام ایک عام آدمی کے بس کی بات ہوتے یا اتنے ہی آسان ہوتے تو جناب پوری دنیا میں کوئی بلڈنگ ٹھیکیدار سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا ?

لہذا جس کا کام اسی کو ساجھے تو جب بھی آپ بلڈنگ کنسٹرکشن تو ٹھیکیدار ضرور ہائر کریں، کہیں ایسا نہ ہو کے تھوڑے پیسے بچانے کے چکر میں آپ ڈبل خرچہ بھی کرلیں اور کام بھی انتہائی غیر معیاری ہو۔

ٹھیکے کی کتنی اقسام ہیں

ٹھیکے کی کتنی اقسام ہیں اور کس قسم کا ٹھیکا کرنے سے پراجیکٹ مالک کو کیا فائدہ ہوتا ہے اور کیا کام کرنا پڑتے ہیں۔

ٹھیکے کی دو قسمیں ہیں بمعہ مٹیریل اور لیبر ریٹ۔

بمعہ مٹیریل کی آگے دو مزید قسمیں ہیں جس میں ہے اسٹرکچر اور دوسری کا نام ہے فنشنگ۔

اسٹرکچر میں متعلقہ ٹھیکیدار صاحب آپ سے طے کردہ معیار کے مطابق اینٹ، سریا، ریت، بجری سب خود خریدیں گے اور آپکو اسٹرکچر یا جسے ڈھانچہ کہ لیں وہ خود ہی تیار کردیں گے بعد ازاں اسکی فنشنگ کا کام خود کریں گے۔

ٹھیکے کی یہ قسم ایسی لوگوں کے لیے بہترین ہے جن کے پاس وسائل کم ہوں اور انکا پلان ہو کہ وہ پراجیکٹ کو دو حصوں میں مکمل کریں گے اور وہ اپنے پراجیکٹ کو وقت و توجہ بھی نہ دے سکتے ہوں۔۔۔

بمعہ مٹیریل میں چابی یا کمپلیٹ ٹھیکے کا مطلب ہے کہ پراجیکٹ مالک کا کام فقط ایگریمنٹ کرنا ہے باقی تمام کام ٹھیکیدار خود سنبھالے گا اور پراجیکٹ مکمل کرنے کے بعد چابی مالک کے ہاتھ پر رکھ دے گا۔

ٹھیکے کی یہ قسم ان مالکان کے لیے بہتر ہے جو کسی بیرون ملک یا شہر میں پراجیکٹ بنا رہے ہوں اور ان کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ خود جا کر مارکیٹ کا سروے کرنے کے بعد پراجیکٹ کے حوالے سے مختلف چیزیں خرید سکیں، اور اسکا چیک اینڈ بیلنس بھی خود رکھیں۔

ٹھیکے کی دوسری بڑی قسم ہے لیبر ریٹ جسکی آگے مزید چار اقسام آئٹم ریٹ، گرے اسٹرکچر، تیسی کانڈی اور چابی ہیں۔

آئٹم ریٹ کا مطلب ہے کہ پراجیکٹ مالک ہر ہر کام مثلا چنائی، شٹرنگ، سریا، بھرائی کے لیے چھوٹے پیٹی ٹھیکیداروں کو ہائر کرے گا انہیں کام سمجھائے گا انہیں متعلقہ اوزار یا چیزیں بھی لیکر دے گا اور ان سے کام بھی خود لے گا۔

گرے اسٹرکچر میں صرف ڈھانچے کی حد تک لیبر جیسے چنائی والے، شٹرنگ والے، سریے والے اور چھت کی بھرائی کرنے والے ٹھیکیدار مہیا کرے گا اوران سے کام لینا انہیں انکی متعلقہ چیزیں جیسے بیلچے، ریڑھیاں، بانس پھٹے وغیرہ۔

تیسی کانڈی میں گرے اسٹرکچر کے کام کے علاوہ پلستر اور فرش بھی متعلقہ ٹھیکیدار ہی نے کرنے ہوتے ہیں۔

جبکہ چابی میں تیسی کانڈی کے تمام کام کے علاوہ لکڑی کا کام, پلمبنگ، بجلی کا کام، پینٹ کا کام کرنا بھی بذمہ ٹھیکیدار ہوتا ہے اور ان سب کا مٹیریل مالک ہی مہیا کرے گا۔

یہ تو ہوگئی ان دونوں کی ٹھیکوں کی تفصیل اب ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بمعہ مٹیریل ٹھیکا پراجیکٹ مالک کو نسبتا مہنگا پڑتا ہے لیکن وہ تمام طرح کی ٹینشنز و پریشانیوں سے آزاد ہوجاتا ہے، مثلا لیبر ارینج کرنا، شہر کا کونا کونا گھوم پھر کر یہ پتہ کرنا کہ کونسی چیز کہاں سے معیاری اور سستی ملے گی، لیںر کو ڈیل کرنا انکے نخرے, انکی پھٹیکیں بھگتانا, متعلقہ سوسائٹی کے ساتھ معاملات کو دیکھنا وغیرہ

جبکہ لیبر ریٹ ٹھیکا پراجیکٹ مالک کو سستا پڑتا ہے لیکن بہت سے کام خود کرنا پڑتے ہیں اور پراجیکٹ کو مناسب وقت بھی دینا پڑتا ہے۔

لہذا ایسے لوگ جن کے پاس وقت اور طاقت کی کمی نہیں ہے وہ لیبر ریٹ پر کام کروائیں جبکہ جو یہ چیزیں مینیج نہیں کرسکتے وہ بمعہ مٹیریل۔

لوڈ بیرنگ اور فریم اسٹرکچر بلڈنگ کی تعریف اور ان میں موجود فرق۔

لوڈ بیرنگ اس بلڈنگ کو کہا جاتا ہے جس میں سادہ طور پر دیواریں کھڑی کرکے ان پر چھت ڈال دی جاتی ہے اس قسم کی بلڈنگ میں کالمز اور بیم وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا جس سے اس بلڈنگ کی “کنسٹرکشن کاسٹ” کم ہوجاتی ہے، لوڈ بیرنگ عمارت آگے کئی قسم کی ہے مثلا سالڈ بلاک کی دیواروں پر چھت ڈالنا، ہالو بلاک کی دیواروں پر چھت ڈالنا، ساڑھے چار انچ موٹی جسے سنگل اینٹ کی دیوار بھی کہا جاتا ہے ان سے دیواریں کھڑی کرکے اوپر چھت ڈال دینا اور نو انچ موٹی دیواروں پر چھت ڈال دینا۔

فریم اسٹرکچر بلڈنگ کہا جاتا ہے ان تعمیرات کو جن میں پہلے کھدائیاں کرکے کالم/پلر کھڑے کیے جاتے ہیں، بعد ازاں ان پر پلنتھ بیم (اگر رافٹ ہوئی ہو تو پلنتھ بیم نہیں ڈالا جاتا) بنا کر اوپر لے جاتے ہیں اور چھت کے ساتھ پھر لٹک والا بیم دے کر اوپر چھت ڈال دی جاتی ہے۔

مذکورہ دونوں فریم اسٹرکچر اور لوڈ بیرنگ میں سے ہر لحاظ سے فریم اسٹرکچر بلڈنگ زیادہ مضبوط، زیادہ پائیدار، اور زیادہ آسانی سے بن جاتی ہے لیکن یہ خرچے کے معاملے میں لوڈ بیرنگ بلڈنگ سے خاصی مہنگی ہوتی ہے لیکن اس میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو مضبوط ہے، اس بلڈنگ کی عمر زیادہ یے اور ساتھ ہی ساتھ آپ جب چاہیں اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق دیواریں نکال کر کمرے بڑے چھوٹے کرلیں یا پورے گھر کا لے آئوٹ ہی بدل دیں (پاکستان میں عموما فریم اسٹرکچر بلڈنگ کا یہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا)۔

سریے کے وزن میں کی جانیوالی ہیر پھیر سے بچنے کا طریقہ۔

بہت سے دوستوں نے انباکس اور کمنٹس میں پوچھا کے اپنے تعمیراتی کام کراتے ہوئے ہم جب سریا خریدتے ہیں تو اس کے وزن میں بہت دو نمبری ہوتی ہے وغیرہ تو آئیے آپکو بتاتے ہیں کہ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

سب سے پہل تو یاد رکھیئے کہ جس سریے پر چھوٹی چھوٹی شاخیں سی نکلی ہوں گی جان لیجیے کہ وہ سریا کچرے سے بنا ہوا ہے وہ ہرگز مت خریدیں، اس کے علاوہ سریے کی ہر ہر لینتھ/بار کے اوپر ایک کونے پر اسکی تفصیل لکھی ہوتی ہے اسے غور سے پڑھیں کیونکہ 60گریڈ کا سریا 40گریڈ کے سرہے سے مہنگا ہوتا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ آپکو 60 کا بتا کر 40 پکڑایا جارہا ہے۔

اب آتے ہیں سرہے کے وزن کو جاننے کے کلیے کی طرف، پاکستان میں تین سوتر سے آٹھ سوتر تک کا سریا استعمال ہوتا ہے، ان میں سے بھی عام گھروں میں تین اور چار ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

تین اور چار کا سریا چھت، سیرھی، چھوٹے کالمز، چھوٹے بیمز وغیرہ میں جبکہ بڑے بیم یا بڑے کالمز میں چھے سوتر کا سریا استعمال ہوتا ہے۔

تین سوتر کی ایک 40′ لینتھ کا کل وزن 6.8 کلو ہوتا ہے یعنی 6 کلو اور 800 گرام، جبکہ تین سوتر کے سریے کے ایک فٹ کے پیس کا وزن 170 گرام ہوتا ہے۔

چار سوتر کے 40 لینتھ کا وزن 12.10 کلو یعنی 12کلو اور 100 گرام جبکہ ایک فٹ کے پیس کا وزن 302 گرام ہوتا ہے۔

پانچ سوتر کی ایک 40 فٹ لینتھ کا وزن 18.90 یعنی 18کلو اور 900گرام جبکہ ایک فٹ کے پیس کا وزن 476 گرام ہوتا ہے۔

چھے سوتر کی 40 فٹ لینتھ کا کل وزن 27.22 یعنی 27کلو اور 220 گرام جبکہ ایک فٹ پیس کا وزن 680 گرام ہوتا ہے۔

سات سوتر کی 40فٹ لینتھ کا کل وزن 37.05 یعنی 37کلو اور 050 گرام جبکہ ایک فٹ کے پیس کا وزن 930گرام ہوتا ہے۔

آٹھ سوتر کی 40فٹ لینتھ کا کل وزن 48.39 یعنی 48کلو 390گرام اور ایک فٹ کے پیس کا وزن 1.21 یعنی 1کلو 210گرام ہوتا ہے۔۔۔

اب آپ جب بھی سریے خریدیں تو وزن کرا لینے کے بعد اسکی باریں گنیں مثال کے طور پر آپ مے 4سوتر کی 10باریں لیں ہیں جن میں سے ہر ایک کی لمبائی 40 فٹ ہے، انکے وزن کا کلیہ/فارمولا آپکے پاس موجود ہے 12.10×10 = 121کلو۔

اب اگر یہ 121 کلو ہے پھر تو ٹھیک یے یا اس میں زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ کلو اوپر نیچے ہوجانے کی رعایت موجود ہے (وجہ سریے کی میکنگ اور پڑے ہڑے تھوڑا زنگ لگ جانے کی صورت میں معمولی وزن کا کم ہونا) لیکن اگر 4 سوتر کی 40فٹی 10 باروں کا وزن 100کلو بن رہا ہے تو سمجھ جائیں آپکو چوناء لگایا جارہا ہے، اور یہ سریے کے ٹھیے یا فیکٹری والا رانگ نمبر ہے الٹے قدموں واپس بھاگ جائیں۔

انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینک/اوور ہیڈ واٹر ٹینک کی تعمیر۔

اکثر ہمارے ہاں گھروں میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے زیر زمین پانی کی ٹینکیاں بنائی جاتی ہیں اسکے بہت سے فوائد ہیں۔

پانی اسٹور ہوجاتا ہے،

کسی وجہ سے بور یا پانی کی سپلائی منقطع ہو بھی جائے تو چار پانچ دن گزارا کیا جاسکتا ہے،

ٹینکر سے پانی لینے کی صورت میں خرچ کم آتا ہے (ٹینکر اگر چھت پر موجود ٹینکی میں پانی ڈالے گا تو زیادہ پیسوں کا تقاضا کرے گا اور پانی ضائع بھی ہوگا۔

نیز بور میں موجود میزائل موٹر بجلی زیادہ استعمال کرتی ہے، جبکہ پانی کی ٹینکی پر چھوٹی موٹر رکھ کر بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔

اب آتے ہیں کہ انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینک کی تعمیر کیسے کی جائے، اگر تو ٹینک ایسی جگہ بنایا جارہا ہے جہاں چاروں اطراف ڈھیر ساری مٹی وغیرہ موجود ہو اسے اینٹوں سے ہی تعمیر کرنا چاہیئے لیکن اگر نہ ہو یا ٹینکی عمارت کی ایسی بنیاد میں بنانی ہو جہاں عمارت کا بہت زیادہ وزن آرہا ہو تو آر سی سی یعنی اسٹیل اور کنکریٹ سے بنانی چاہیئے۔

اینٹوں سے بنانے کی صورت میں بہترین تر اینٹیں تیز مصالحے (1:4) کے ساتھ “پھیر” کر لگانی چاہیئیں (پھیر کر لگانے کا مطلب کہ ایسے نہیں کرنا چاہیئے کہ ٹینکی کی ایک پوری دیوار پہلے لگا دی پھر دوسری پھر تیسری بلکہ تمام دیواریں ایک ساتھ اٹھائی جائیں)، چنائی مکمل ہونے کے ایک دن بعد اسے اچھی طرح پانی لگا کر تیز مصالحے (1:4) سے اسے پلستر کردیا جائے، اور اس پر جھاڑو پھیر دیں تاکہ لائنیں سی بن جائیں، یاد رکھیں پلستر کرتے وقت ٹینکی کی دیواروں کے چاروں جوڑ ٹیپر کردیں، جبکہ فرش پر بھی ایکسٹرا 3 انچ کنکریٹ کردیں تاکہ دیواروں اور بنیادوں کا جوڑ مکمل محفوظ ہوجائے، اب آخر میں اس پلستر شدہ دیواروں پر زیرو سائز کی سفید دانوں والی چپس کردیں، اس سے انشاء اللہ یہ مکمل واٹر پروف ہوجائیگی اور کبھی بھی پانی رسنے کی کمپلین نہیں ہوگی۔

کنکریٹ کی بنانے کی صورت میں کنکریٹ کو اچھے طریقے سے مکس کرکے ڈالنا چاہیئے، دیواروں کی موٹائی کم از کم پانچ انچ ہونی چاہیئے اور دیواروں میں موجود سریے کو فرش اور چھت میں ایل کرکے لگانا چاہیئے، جبکہ دیواروں میں موجود لڑی کو بھی کم از کم ایک فٹ کا ایل لگا کر دوسری دیوار کے ساتھ جوڑنا چاہیئے۔

نوٹ : چھت پر موجود ٹینکی جسے اوور ہیڈ واٹر ٹینک بھی کہتے ہیں اسے کسی صورت میں بھی اینٹوں کا نہیں بنانا چاہیئے۔

کنکریٹ یعنی ریت، بجری اور سیمنٹ کا حساب کرنا۔

اکثر احباب کا سوال ہوتا ہے کہ ہم نے فلاں جگہ کنکریٹ کرنی ہے تو اسکا حساب کرکے بتائیں کہ اس میں سیمنٹ کتنا لگے گا، کتنی ریت اور کتنی بجری۔

تو آئیں آج آپکو سکھاتے ہیں کہ بہ آسانی ان چیزوں کا حساب کیسے کیا جاتا ہے۔

سب سے پہلی بات تو ان چیزوں کا حساب کرنے کے لیے آپکو ریشو/مقدار کا پتہ ہونا چاہیئے کہ کیسے آپ نے کنکریٹ کرنی ہے مثلا عام چھت کی ریشو 1:2:4 ہوتی ہے، (ایک حصہ سیمنٹ، دو حصے ریت، اور چار حصے کرش) فرش سے پہلے کا کچا کیا جارہا ہوں تو عموما 1:3:6 ہوتا ہے، جبکہ کالمز اور بیمز کے لیے 1:1.5:3 استعمال ہوتا ہے غرض جو بھی ریشو ہو اسکا پتہ ہونا چاہیئے۔

اب آپ اس ایریے/رقبے کو ماپ لیں اور اسکے کیوبک فٹ نکال لیں جس میں آپ نے وہ کنکریٹ کرنی ہے مثلا ایک 25فٹ چوڑی اور 50′ فٹ لمبے ایریے میں آپ 5انچ موٹی کنکریٹ کرنا چاہتے ہیں تو اس ایریے کی کنکریٹ کا حساب کچھ یوں ہوگا۔

25x50x(5/12) = 525 کیوبک فٹ۔

اب اس حاصل ضرب کو 1.54 سے پھر ضرب دیں۔

(1.54 ایک مستقل ریٹ ہے اس سے ضرب کیوں دیا جاتا ہے ؟

تو جان لیجیے کہ آپ ایک آدھی بالٹی بجری/کرش کی لیں اور پھر دوسری آدھی ںالٹی ریت کی۔

جب ریت کی بالٹی آپ کرش کی بالٹی میں ڈالیں گے تو اصولی طور پر تو ہونا چاہیئے کہ آدھی بالٹی ریت اور آدھی بالٹی کرش مل کر پوری ایک بالٹی بن جائیں، لیکن ایسا ہوگا نہیں۔

کیونکہ جیسے ہی آپ اس پر پانی ڈالیں گے تو پانی ریت کو بہا کر بجری میں موجود خلاء/voids میں لے جائیگا، انجینیئرز کے بار بار کیے تجربات سے ثابت شدہ ہے کہ قریب آدھی سے کچھ زیادہ ریت بجری کے خلاء میں چلی جاتی ہے اس لیے ہم اسے 1.54 سے ضرب دیتے ہیں)۔

525×1.54=808.5کیوبک فٹ

اب اگر آپکی ریشو 1:2:4 ہے تو سیمنٹ نکالنے کے لیے 1+2+4 یعنی کل 7حصے۔

808.5÷7=115.5کیوبک فٹ

115.5÷1.25=92.4bags.

ریت کے لیے۔

808.5÷7= 115.5×2 = 231فٹ

جبکہ کرش کے لیے

808.5÷7= 115.5×4 =

462 کیوبک فٹ۔

نوٹ :: سیمنٹ کے حاصل شدہ کیوبک فٹ کو 1.25 سے تقسیم کرنے کی وجہ ہے کہ ایک 50 کلو والا سیمنٹ کا بیگ 1.25 کیوبک فٹ ہوتا ہے۔

اینٹوں کی دیوار میں کتنی نسبت کا مصالحہ استعمال کرنا چاہیئے اور اسکی مقدار نکالنے کا طریقہ۔

ہمارے سابقہ ٹاپک کنکریٹ میں ریت بجری اور سیمنٹ کا حساب لگانے میں بیت سے دوستوں نے سوال کیا کہ مصالحے کی کونسی ریشو/مقدار اچھی ہوتی ہے اور اس میں مٹیریل کا حساب کیسے کیا جاتا ہے۔

تو احباب کی رہنمائی کے لیے بتا دیں کہ اگر اینٹوں کی دیوار کی موٹائی 4.5″ ہوگی ہوگی تو مصالحہ 1:4 کا استعمال کرنا چاہیئے، یعنی ایک حصہ سیمنٹ اور چار حصے ریت۔

جبکہ دیوار اگر 9″ کی ہو یا اس سے بھی موٹی تو 1:6 کا مصالحہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔

اگر دیوار ایسی جگہ بنائی جارہی ہے جہاں اس پر پریشر زیادہ آنا یو جیسے پانی کی ٹینکی کی دیواریں تو وہاں بھی مصالحہ 1:4 ہی استعمال ہوگا۔

اس مصالحے کی مقدار جاننے کا فارمولا ہے کہ پہلے آپ دیوار کے کیوبک فٹ بنا لیں مثلا 10 فٹ اونچی 10 فٹ چوڑی اور 9 انچ موٹی دیوار کو آپس میں ضرب دیں۔

10x10x(9÷12)= 75کیوبک فٹ

اب اس حاصل ضرب کو سو حصوں میں تقسیم کریں۔

75÷100= 0.75

اور ضرب دے دیں 25 سے۔

0.75×25 = 18.75

ایسا کرنے کی وجہ۔

یاد رکھیئے ایک دیوار کے کل کیوبک فٹ کا 25% اس میں مصالحہ لگ جاتا ہے۔

اب آپکے پاس جو 18.75 آیا ہے اسے ضرب دیجیے 1.27 سے (یہ فارمولا ہے کہ جب سوکھی ریت اور سیمنٹ کو مکس کرکے اس میں پانی ملایا جاتا ہے تو وہ 1.27 فیصد بڑھ جاتا ہے)۔

18.75×1.27=23.81کیوبک فٹ

اب مصالحہ کی جو بھی مقداد ہو اسکے حاصل ضرب کو 23.81 سے تقسیم کرلیں مثلا آپ مصالحہ استعمال کررہے ہیں 1:6 کو تو اسکا حاصل جمع 7 ہے۔

23.81÷7= 3.40

سیمنٹ کے لیے 3.40 کو پھر سے 1.25 پر تقسیم کریں۔

3.40÷1.25 = 2.75 بیگ

اور ریت کے لیے

3.40 x 6 = 20.4 کیوبک فٹ۔

مزید آسانی کے لیے بتادوں کہ 9انچ کی ایک سیکڑہ دیوار میں 1:6 کے حساب سے تقریبا 3 بوری سیمنٹ اور 21 فٹ ریت لگتی ہے۔

4.5 انچ موٹی ایک سیکڑہ دیوار میں 1:4 کا مصالحہ استعمال ہو تو قریب دو بوری سیمنٹ اور دس کیوبک فٹ ریت لگ جاتی ہے۔

آخر میں اہم ترین بات !!

اینٹوں کی دیوار میں مصالحہ آپ چاہیں 1:3 کا استعمال کرلیں اگر اسکی ترائی ٹھیک سے نہیں ہوئی تو اسکا کوئی فائدہ نہیں اور وہ اس 1:6 مصالحے سے بھی بری اور کمزور ہوگی جسکی ترائی دبا کر ہوئی ہو۔

آج کا ٹاپک : اینٹوں کی تعداد نکالنے کا طریقہ۔

رہائشی یا کمرشل عمارات میں یہ حساب لگانا کہ عمارت میں اینٹیں کتنی لگیں گی نہایت آسان سا کام ہے، اس سے ہمیں بجٹ بنانے میں بھی آسانی ہوجاتی ہے۔

سب سے پہلے عمارت میں بننے والی دیواروں کی کل لمبائی جمع کرلیں، اور اس کلیے کے مطابق اینٹوں کی تعداد معلوم کرلیں۔

ایک کیوبک فٹ میں مصالحے کے ساتھ 13.5 اینٹیں لگتی ہیں (یاد رہے اینٹ کا اسٹینڈرڈ سائز 9×4.5×2.75 ہوتا ہے اگر اینٹ زیادہ بڑی چھوٹی ہوگی تو اس کا الگ سے نکالنا ہوگا).

اب مثال کے طور پر آپ نے دس فٹ لمبی، دس ہی فٹ چوڑی اور 9 انچ موٹی دیوار میں اینٹوں کی تعداد معلوم کرنی ہے تو انہیں آپس میں ضرب دیں۔

10x10x(9/12) = 75 کیوبک فٹ

75 x 13.5 = 1012.5 اینٹیں

یہی دیوار اگر 4.5 انچ موٹی ہوگی تو

10x10x(4.5/12) = 37.5 کیوبک بک۔

37.5 x 13.5 = 506 اینٹیں۔

ڈور لنٹل کو آپ بیشک ہاتھ سے کنکریٹ مکس کر کے بھریں، لیکن شرط ہے کہ کنکریٹ کو کم از کم 3 دفعہ کلٹی دیں، سیمنٹ ریت اور کرش کی پوری مقدار پوری ڈالیں کوئی بھی چیز کم زیادہ نہ ہو، شٹرنگ (فارم ورک) بھی اچھی ہو اور اس میں راڈنگ ٹھیک کریں۔

یہ خوبصورت بھی بھرے جائیں گے، اور انکی مضبوطی بھی بہترین ہوگی۔

پلستر کے بارے میں کچھ تفصیلات۔

پلستر کرنے سے پہلے دیواروں کو اچھی طرح پانی لگا کر تر کرنا چاہیئے۔

پلستر کرنے سے پہلے بجلی کے پائپ وغیرہ کا کام مکمل کرلینا چاہیئے تاکہ بعد میں دیواروں کو کاٹنا نہ پڑے۔

بیرونی پلستر کے لیے 1:4 اور اندرونی اطراف 1:5 ریشو سب سے اچھی ہوتی ہے۔

پلستر کے لیے باریک صاف ستھری ریت استعمال کرنی چاہیئے۔

۔ پلستر کی آئیڈیل موٹائی آدھ آنچ سے ایک آنچ تک ہوتی ہے اس سے زیادہ ڈیڑھ آنچ تک ہو تو اسکے لیے پہلے رف پلستر کرکے اوپر فائنل پلستر کرنا چاہیئے یعنی دو حصوں

میں کرنا چاہیئے۔

پلستر کے اوپر اگر پینٹ کا کام کرنا ہو تو اس پر لوہے کا گرمالا نہیں مارنا چاہیئے بلکہ فوم کا استعمال کرنا چاہیئے لوہے کے گرمالے سے سطح تو نکھر جاتی ہے لیکن سیمنٹ اوپر آجانے سے پلستر کچھ غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔

جس جگہ کنکریٹ اور چنائی کا جوڑ ہو وہاں پلستر سے پہلے اگر لوہے کی باریک جالی لگا لی جائے تو بعد ازاں کریکس نہیں پڑتے۔

پلستر کرنے کے بعد کم از کم چار سے پانچ دن متواتر اسے پانی لگاتے رہنا چاہیئے۔

 پلستر میں استعمال ہونے والے میٹیریل کی مقدار معلوم کرنے کا طریقہ، نیز لیبر کاسٹ۔

سب سے پہلے پچھلی ہماری تحریر نامکمل تھی اسکے لیے معذرت۔

پلستر میں استعمال ہونے والے میٹیریل کی مقدار یوں معلوم کی جاتی ہے۔

دس ضرب دس کی دیوار پر 1 آنچ موٹا پلستر ہورہا ہے تو۔

10x10x(1÷12)

8 cubic feet.

اسے اب ضرب دیجئے اپنے کانسٹنٹ ریت 1۔27 سے (اس سے ضرب کیوں دی جاتی ہے یہ ہم پرانی تحاریر میں تفصیل سے بتا چکے ہیں۔

8×1.27 = 10.16cft

اس حاصل ضرب کو اپنے پلستر کی ریشو کے حاصل جمع سے تقسیم کریں (فرض کیا ہم 1:4 کا مصالحہ استعمال کریں گے تو انکا حاصل جمع 5 آئیگا)۔

10.16÷5= 2.032

اسے ایک سے ضرب دیں کیونکہ سیمنٹ ایک حصہ ہے۔

2.032×1 = 2.032

اب اسے 1۔25 سے تقسیم کرلیں (سیمنٹ کا ایک پچاس کلوگرام والا تھیلا 1۔25 کیوبک فٹ کا ہوتا ہے۔

2.032 ÷ 1.25 = 1.63bag

ریت نکالنے کے لیے۔

10.16 ÷ 5 = 2.032

حاصل تقسیم کو 4 سے ضرب کیونکہ ریت چار حصے ہے۔

2.032 x 4 = 8.128 cft

نوٹ:: پلستر کرنے سے پہلے دیوار پر نیرو (پانی میں سیمنٹ گھول کر) لگایا جاتا ہے اسکی کوئی خاص ریشو نہیں ہے لیکن عموما 300 اسکوائر فٹ کی دیوار پر ایک بوری سیمنٹ کی بطور نیرو لگ جاتی ہے۔

300 sq feet = 10′ x 30′ wall

پلستر کی لیبر اسلام آباد و راولپنڈی میں 10 سے 14 روپے فی مربع فٹ چل رہی ہے اور اگر گو کا سامان یعنی پھٹے بانس اور رسیاں نہ دی جائیں تو مزید ایک روپیہ بڑھ جائیگا۔

 نقشہ کس سے بنوانا چاہیئے۔

ہمارے ہاں گھر تعمیر کرتے اکثر لوگ نقشہ نہیں بنواتے جو کے ایک فاش غلطی ہے نقشہ ضرور بنوا لینا چاہیئے (ہوسکے تو اسٹرکچر بھی ڈیزائن کرائیں خصوصا اگر برا گھر تو اسٹرکچر ڈیزائن کرا لینے سے سریے کی ٹھیک ٹھاک بچت ہوتی ہے) تاکہ گھر بننے سے پہلے پتہ چل جائے کہ کیا بننا ہے اور ممکنہ حد تک آپکے پاس گھر کے حوالے سے کیا کیا آپشن موجود ہیں۔

اب واپس آتے ہیں اپنے ٹاپک پر کہ نقشہ بنوانا کس سے چاہیئے؟

یاد رکھیں کمپیوٹر پر نقشہ بنانا کوئی بڑا کام نہیں ہے یہ ایک چھوٹا سا کمپیوٹر کورس AutoCad ہے جو بہ مشکل 3 ماہ پر مشتمل ہے، اور کوئی بھی جسے کمپیوٹر کی بیسک معلومات ہوں وہ یہ کورس کرکے “نقشہ نویسی” کا کام کرسکتا ہے، لیکن کیونکہ یہ لوگ باقاعدہ انجینیئر نہیں ہوتے یا انہیں فیلڈ ورک کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تو یہ خوشنماء لکیریں تو لگا دیتے ہیں لیکن انکی لگائی لکیروں کو عملی طور پر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

میں نے جب سے “بلڈنگ کنسٹرکشن معاملات میں رہنمائی” کا سلسہ شروع کیا تو مجھے اکثر لوگ اپنی بلڈنگز کے نقشوں کی تصاویر بھیج کر پوچھتے ہیں کہ یہ دیکھیں کیسا ہے اور میں دیکھ کر بے اختیار انا اللہ پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں،

مثلا کل ایک بھائی نے مجھے اپنی 20 30x فٹ بڑی دوکان کا نقشہ بھیجا اس میں وہ کوئی شو روم بنانا چاہ رہے ہیں اور اوپر کی منزل پر اسی شوروم کا اسٹور۔

کمرشل بلڈنگ میں ممکنہ حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ فرنٹ کلیئر رہے، لیکن نقشہ نویس نے فرنٹ سے سیڑھیاں بالکل سیدھی اوپر چڑھا دیں، بندہ پوچھے بھائی کیوں جگہ کی تباہی کررہے ہو۔۔۔

اور آپ نے تو لکیریں ماردیں یہ تو بتائو کہ یہ بیس فٹ کا اسپین آپ کھڑا کس پر کرو گے ہوا میں ؟؟

کیونکہ ایک سائیڈ تو ساری آپ نے سیڑھی میں ڈراء کردی ہے تو اس دکان کی چھت کیا صرف ایک دیوار پر کھڑی ہوگی یعنی 18 فت کا شیڈ۔۔۔

اسی طرح ایک صاحب نے نقشہ بھیجا اس میں نقشہ نویس بھائی نے صرف ڈیڑھ فٹ اوپن جگہ چھوڑی ہوئی تھی اس سادے آدمی سے کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندے ڈیڑھ فٹ جگہ میں ventilation تو مانا کے ہوجائیگی لیکن اس جگہ کو اندر سے پلستر کیسے کرو گے ( ڈیڑھ فٹ جگہ میں تو کوئی کھڑا نشکل سے ہوتا ہے کام کیسے کرے گا) جبکہ اسکا پلستر ہونا ضروری بھی ہے وہ ایسی جگہ میں ہے جس نے کچن سے بھی نظر آنا ہے اور پورچ سے بھی۔

لہذا نقشہ بنواتے خیال کیجیے کہ نقشہ نویس صرف آٹو کیڈ آپریٹر نا ہو بلکہ سول انجینیئر ہو اور اسے فیلڈ سے متعلق چیزوں کا بھی پتہ ہو تاکہ وہ یہ جانتا ہو کہ وہ جو نقشہ بنا رہا ہے وہ الیکٹریکل، پلمبنگ، آرکیٹیکچر اور خصوصا اسٹرکچر (سریے) کے حوالے سے باعمل بھی ہے یا نہیں (ایک مثال ایک بھائی صاحب کو نقشہ نویس نے نقشہ بنا کردیا کہ 30 فٹ لمبا بیم ہے اور دونوں اطراف صرف ایک ایک فٹ کا کالم)۔۔۔

چوکھاٹ کی اقسام، انکا مثبت اور منفی پوائنٹ، اور قیمتوں میں فرق۔

پاکستان میں اس وقت تین قسم کی چوکھاٹ موجود ہیں۔

لوہے کی (انہیں کالی چوکھاٹ بھی کہتے ہیں)۔

جستی چوکھاٹ

سالڈ لکڑی کی چوکھاٹ۔

لوہے کی چوکھاٹ میں مختلف گیج ہوتے ہیں جتنا گیج کم ہوگا اتنی چوکھاٹ بھاری ہوگی اور مضبوط بھی، عام روٹین میں 14 یا 16 گیج کی چوکھاٹ استعمال کہ جاتی ہے، لوہے کی چوکھاٹ سب سے سستی ہوتی ہے اور اس پر بعد ازاں استر (لال رنگ کا پینٹ) مارا جاتا ہے تاکہ زنگ لگنے سے محفوظ رہے۔

اگر اس چوکھاٹ کو براہ راست پانی نہ لگتا رہے تو اسے بیس پچیس سال تک کچھ نہیں ہوتا اور قائم رہتی ہے، اسکا انتہائی نیگیٹیو پوائنٹ یہ ہے کہ کیونکہ یہ دیوار کے اندر کنکریٹ کے ساتھ فکس ہوگی ہے اور اسکے اوپر بھی کنکریٹ ڈال کر ہی اسے مضبوط کیا جاتا ہے تو اسے اگر اکھاڑا جائے تو یہ ساری دیوار تباہ کرکے ہی اکھڑے گی۔

چوکھاٹ کی دوسری قسم ہے جستی چوکھاٹ یہ سلور کلر کی ہے، جستی اور لوہے کی قیمت میں 19-20 کا ہی فرق ہوتا ہے (کیونکہ اس میں جستی کا بس رنگ ہی ہے درحقیقت یہ مکس مٹیریل سے بنتی ہے)۔

جستی چوکھاٹ لوہے کی چوکھاٹ کی نسبت زنگ کے خلاف زیادہ بہتر ہے باقی بلحاط مضبوطی اور منفی پوائنٹ دونوں کا ایک ہی حال ہے۔

جستی چوکھاٹ کا ایک اور نیگیٹیو پوائنٹ یہ بھی ہے کہ بعد ازاں اس پر رنگ نہیں ٹھہرتا چاہے جتنا بھی خرچہ کرلیں اس پر رنگ کا مسئلہ ہی رہتا ہے۔

اخری قسم ہے لکڑی کی چوکھاٹیں، لکڑی کی چوکھاٹ میں مزید کئی اقسام ہیں جیسے پڑتل کی لکڑی، کائل، دیار وغیرہ۔

بلحاظ خوبصورتی لوہے یا جستی کی چادر کا لکڑی کی چوکھاٹ کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں، یہ انتہائی خوبصورت لگتی ہیں بعد ازاں ان پر بڈنگ وغیرہ بھی لگائی جا سکتی ہے (لوہے یا جستی پر رنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا)۔

لکڑی کی چوکھاٹ کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ جب چاہیں دروازہ کھول کر سائیڈ پر رکھیں اور اسکے کیل نکال کر پوری چوکھاٹ باہر نکال کر نئی لگا لیں اس سے دیوار کو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوگا۔

لیکن منفی پوائنٹ میں سر فہرست اسکی قیمت ہے۔

پاکستان میں سب سے کم قیمت لکڑی پڑتل ہے اگر اس سے بھی چوکھاٹ بنائی جائے تو وہ -7000-6000 روپے سے کم میں نہیں بنے گی جبکہ یہی چوکھاٹ لوہے کی ہو تو 3500 اور جستی ہو تو 3700 روپے کی بہ آسانی بن جاتی ہے۔

پھر لکڑی کی چوکھاٹ کو جتنی مرضی دوائی (دیمک سے بچائو کے لیے) لگا لیں اس پر دیمک لگنے کا خدشہ رہتا ہی ہے۔

ماربل لگانے کا کتنا خرچہ ہوتا ہے، ماربل اور ٹائل کے فرش میں کیا فرق ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ یاد رکھیئے ماربل سارے ہی پائیدار ہوتے ہیں، انکی قیمتوں میں فرق انکی خوبصورتی کی وجہ سے ہے۔

ماربل کا فرش پائیداری میں ٹائل کی نسبت زیادہ بہتر ہے، اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ جب چاہیں فرش کی رگڑائی اور پالش پھر سے کرالیں اور یہ بالکل نیا نکور ہوجائیگا، جبکہ اسکا منفی پہلو ہے کہ اس پر صفائی کرنا نسبتا مشکل ہوتا ہے، اس پر سلپنگ بہت زیادہ ہوتی ہے، ماربل میں چوائس نسبتا کم ہوتی ہے، اسے لگانا نسبتا لمبا کام ہے۔

ٹائل کا فرش خوبصورتی میں بے مثال ہے اسی لیے آج کل زیادہ تر ٹائل استعمال ہورہی ہے، آج کل ہزاروں قسم اور رنگوں میں ٹائل دستیاب ہے، اس پر صفائی کرنا بہت آسان ہوتا ہے ہلکا سا کپڑا ماریں اور بس، اسے لگانا بھی ماربل سے نسبت آسان ہے اور میٹ ٹائل پر سلپنگ بھی کم ہوتی ہے، جبکہ دوسری جانب اسکے منفی پہلوؤں میں سرفہرست اسکی مضبوطی ہے، اس پر رگڑ یا کوئی داغ لگ جائے تو یہ ریپیئر ایبل نہیں ہوتی واحد حل اس پیس کو اکھاڑ کر نیا لگانا ہے، اور اس وقت اسی رنگ اسی سائز کی ٹائل ملے گی یا نہیں اسکا کوئی یقین نہیں ہوتا۔

عام ماربل اس وقت مارکیٹ میں 32 روپے سے 200 روپے فی مربع فٹ تک موجود ہیں۔

ماربل لگانے کی مزدوری اور رگڑائی قریب اس وقت 25 سے 30 روپے ہے (بمعہ پالش)۔

ماربل لگانے سے پہلے کچا (پی سی سی) کرنا پڑتا ہے وہ تقریبا 8سے 10 روپے فی فٹ میں ہوجاتا ہے۔

جبکہ اسکے مٹیریل (جس میں کچے (pcc) کے لیے سیمنٹ ریت بجری، ماربل کے لیے ریت اور سیمنٹ شامل ہے) پر تقریبا 40 روپے فی مربع فٹ خرچ آتا ہے۔

یعنی اگر سب سے کم قیمت ماربل لگایا جائے تو اسکا کل فی مربع فٹ خرچ ہوگا۔

32 روپے ماربل

30 روپے مزدوری بمعہ رگڑائی اور پالش۔

10 روپے پی سی سی کی مزدوری۔

اور 40 روپے فی مربع فٹ مٹیریل۔

32+30+10+40 =

112 روپے فی مربع فٹ۔

اور اگر کچا یا سادہ فرش پہلے سے لگا ہوا ہے اور اوپر صرف ماربل لگانا ہے تو یہ خرچ ہوگا۔

32 روپے کا ماربل،

30 روپے مزدوری بمعہ رگڑائی اور پالش،

اور 10 روپے کا مٹیریل (ریت اور سیمنٹ)۔

یعنی کل 72 روپے فی مربع فٹ۔

وال پیپرز انٹیریئر ڈیزائننگ کا اہم جزو اور گھر کی اندرونی خوبصورت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

یاد رکھیئے کہ پلستر کے اوپر ڈائریکٹ وال پیپر نہیں لگانا چاہیئے، وال پیپر کے لیے پلستر پر پہلے وال پٹی کریں تاکہ دیوار کی سرفیس بالکل سموتھ یا ملائم ہوجائے پھر اس پر وال پیپر لگائیں۔

انہیں کم از کم پانچ سال تک کچھ نہیں ہوتا، اور اسکی احتیاط فقط اتنی ہے کہ اسے تیز دھار والی کسی نوکیلی چیز سے کھرچنا نہیں چاہیئے ورنہ پھٹ جائے گا کیونکہ ہوتا یہ کاعذ ہی ہے۔

رہی قیمت کی بات تو ایک 10×10 والی دیوار پر وال پیپر مکمل پینٹ کی نسبت صرف 1500-2000 روپے کا فرق ڈالا ہے۔

یعنی اگر 10×10 پر مکمل پینٹ (وال پٹی، تین کوٹ رنگ کے) فرض کیا 10 ہزار روپے کا ہورہا ہے تو وال پیپر لگانے کی صورت میں یہ خرچہ 12ہزار روپے ہر چلا جائیگا۔

بیسمنٹ کی تعمیر، اس پر آنے والے اخراجات، فائدے اور نقصان۔

سر فہرست تو یہ کہ اگر بیسمنٹ بنانا بہت مجبوری نہ ہو تو ممکنہ حد تک بیسمنٹ بنانے سے گریز کرنا چاہیئے، بالخصوص گائوں دیہات میں تو کوشش کریں کہ بیسمنٹ کی تعمیر نا ہی کریں۔

فائدے :: بڑے شہروں میں جگہ کی کمی کا مسئلہ ہوتا ہے مثلا اسلام آباد میں باقاعدہ قانون ہے کہ رہائشی زمین کے اوپر صرف دو منزلیں تعمیر کی جاسکتی ہیں تو اس صورت میں اگر بیسمنٹ تعمیر کر لیا جائے تو ایک منزل اضافی مل جاتی ہے،

بیسمنٹ کیونکہ زمین کے اندر اور اسکے اوپر مزید تعمیر بھی ہوئی ہوتی ہے تو یہ باقی گھر کی نسبت گرمیوں میں زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔

اسے تعمیر کرنے کے لیے زمین نیچے تک کھودا جاتی ہے تو بنیاد مزید مضبوط ہوجاتی ہے۔

نقصان :: اسکی تعمیر انتہائی مہنگی ہوتی ہے،

بیسمنٹ سے سیوریج یا پانی باہر نکالنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنا پڑتی ہے اور یہ ساری زندگی جاری رہتی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں اکثرہتی آبادیوں میں سیوریج کی لائنیں سڑک سے فقط 2-3 فٹ نیچے ہی ڈالی جاتی ہیں، لیکن بیسمنٹ کے لیے 7٫8 فٹ نیچے جایا جاتا ہے لہذا پانی اوپر لا کر لائنوں میں چھوڑنے کے لیے یہ کرنا مجبوری ہوتا ہے کہ سپٹک ٹینک بنا کر پمپ وغیرہ لگانا پڑتے ہیں جو پانی کھینچ کر اوپر لائنوں میں پھینکیں۔

اگر ہوا کی آمدورفت کا مناسب بندوبست نہ کیا جائے تو انتہائی گھٹن اور حبس ہوجاتی ہے، اس میں بڑی کھڑکیاں نہیں بن سکتیں تو روشنی کے لیے زیادہ انحصار برقی توانائی پر کرنا پڑتا ہے جس سے بجلی کے بل میں اضافہ ہوجاتا ہے، معمول سے زیادہ بارشوں پر نکاسی کا سسٹم جواب دے جاتا ہے (یہ ہمارے دیہی علاقوں میں تقریبا ہر مون سون سیزن میں ہوتا ہے) اور جس گھر کا بیسمنٹ ہو وہاں سیوریج ریورس گیئر مار کر چڑھ دوڑتی ہے۔

اخراجات :: بیسمنٹ تعمیر کرنے کی صورت میں کھدائی بہت زیادہ ہوتی ہے،

سپٹک ٹینک بنانا ضروری ہوجاتا ہے،

سب سے اہم اطراف کی تمام دیواریں کنکریٹ کی (R.C.C) بنانا پڑتی ہیں، یہ کس قدر مہنگی ہیں اسکا اندازہ یوں لگا لیں کہ 9 انچ موٹی 10×10 سائز کی اینٹوں کی دیوار قریب 20-25 ہزار روپے میں پلستر سمیت تیار ہوجاتی ہے، جبکہ یہی دیوار اگر کنکریٹ کی ہوگی تو کم از کم 60-65 ہزار روپے میں تیار ہوگی۔

بیسمنٹ کی دیواروں کو واٹر پروف کرنے کے لیے بھی خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے پھر چاہے وہ کیمیکل سے ہوں یا بچومن (لک) سے۔

 رہائشی یا کمرشل بلڈنگز میں سیم آنے کی وجوہات اور اسکا حل (حصہ اول)

سب سے پہلی وجہ ہے بلڈنگ کا نقشہ :: جب بھی گھر بنائیں تو اسکا نقشہ ایسا ہونا چاہیئے کہ پورا گھر ہوادار ہو، ہوا کی بہترین کراسنگ ہوتی ہو اور ممکنہ حد تک پورے گھر کو قدرتی روشنی ملتی ہو، ہوا اور روشنی سے دیواروں یا چھتوں میں موجود ہلکی سی بھی نمی سوکھتی رہیگی اور سیم نہیں آئیگی۔

غیر معیاری بنیاد :: ڈی پی سی یا پلنتھ لیول تیز سیمنٹ اور کنکریٹ کو اچھے طریقے سے مکس کرکے ڈالنا چاہیئے، اگر لگے کہ جگہ میں نمی زیادہ ہے تو اپنی بنیاد کی بیرونی سائیڈ پر تیز سیمنٹ والا پلستر اور چپس کرادیں، جبکہ بیسمنٹ ہونے کی صورت میں ساری دیوار RCC ( سیمنٹ، اور سریے والی) کی بنائیں۔

فرش کا لیول : ہمارے ہاں عموما اناڑی مستری اور ٹھیکیدار ایک بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ فرش کا ٹاپ لیول ڈی پی سی یا پلنتھ بیم سے تھوڑا اوپر یا تھوڑا نیچے کردیتے ہیں، اس وجہ سے بھی دیواروں میں سیم آجاتی ہے لہذا یاد رکھیئے فرش کا لیول ڈی پی سی یا پلنتھ بیم کی ٹاپ کے بالکل برابر یا زیادہ سے زیادہ آدھا انچ نیچے ہونا چاہیئے۔

گیلا پلستر : لوگ جلدی کے چکر میں گیلے پلستر پر ہی پینٹ کرا دیتے ہیں اس سے پلستر میں موجود نمی اندر قید ہوجاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ باہر نکل آتی ہے، لہذا پلستر کرانے کے بعد اسے مناسب وقت دیں جب تک وہ سوکھ نہ جائے اس پر پینٹ وغیرہ کا کام مت کرائیں۔

چھت کی اسلوپ : ٹاپ چھت پر اگر معلوم ہو کہ اس سے اوپر تعمیرات نہیں کرنی تو چھت کی شٹرنگ لگواتے وقت ہی اچھی خاصی سلوپ رکھیں (20 فٹ کی چھت کے لیے 1 انچ کی سلوپ مناسب خیال کی جاتی ہے) اس سے جب بھی بارش ہوگی یا کسی وجہ سے چھت پر پانی آئیگا تو وہ بنا رکے نیچے اتر جائیگا۔

پلمبنگ کے کام میں احتیاط : ہمارے تجربے کے مطابق سیپج کے 50٪ واقعات پلمبنگ کا کام غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، لوگ پیسے بچانے کے لیے اناڑی پلمبر ہائر کرتے ہیں جو ہر چیز کی تباہی کرجاتا ہے، لہذا پلمبنگ کا سامان بھی اچھا استعمال کریں، پلمبر بھی اچھا ہائر کریں اور پائپ ڈالنے کے بعد پلمبر سے کہیں سارے گھر میں پانی چلا کر چیک کرے کہ کہیں لیکج تو نہیں اگر ہو تو اسے انڈر کنسٹرکشن گھر میں ہی ٹھیک کرلیا چاہیئے ورنہ بعد میں سارا گھر اکھاڑ کر ہی یہ معاملہ حل ہوسکے گا۔

کنکریٹ کی احتیاط : چھت بالخصوص باتھ روم کی سنک (باتھ روم کی چھت عام چھت سے 6/9 انچ نیچے رکھی جاتی ہے اسے سنک کہتے ہیں) چھت ڈالتے وقت کنکریٹ اچھے سے مکس ہونی چاہیئے، اور بعد ازاں جلد ہی کچا (پی سی سی) کردینا چاہیئے۔

ماربل کے لگاتے وقت کی جانے والی احتیاطیں۔

اکثر لوگوں نے ہمیں رابطہ کیا اور کہا کہ انکے گھر میں لگا ماربل کھڑکنے لگا ہے، ہماری ٹیکنیکل زبان میں اس ںقص کو ماربل کا بول جانا کہتے ہیں۔

اس نقص کی وجہ کوالٹی کا برا ہونا نہیں بلکہ ماربل لگاتے وقت مستری کی جانب سے کی جانے والی تھوڑی سی بے احتیاطی سے یہ مسئلہ درپیش آتا ہے۔

کنکریٹ والی چھت پر ماربل ہرگز نہ لگائیں بلکہ پہلے اس پر PCC یا کچا ضرور کرلیں،

ماربل لگانے سے پہلے اس فرش کو اچھی طرح صاف کریں کوئی کچرا، مٹی یا ریت وغیرہ مت رہنے دیں،

فرش کو اچھی طرح پانی لگا کر گیلا کرلیں۔

اب فرش پر سوکھے سیمنٹ کا چھڑکائو کریں یا نیرو (پانی میں سیمنٹ گھلا ہوتا ہے),

مسالے (رہت اور سیمنٹ) میں ریت صاف ہونی چاہیئے زیادہ کچا ہا پتھر نہ ہوں۔

فرش پر مسالہ ںچائیں اور اسے برابر کرکے ماربل کو اس پر پریس کرلیں (یہیں سب سے بڑی غلطی کی جاتی ہے کہ مستردمی زیادہ پراگریس لینے کے لیے یا اپنی ناہلی سے مسالے پر ڈائریکٹر نیرو ڈال کر ماربل لگا دیتا ہے)، مسالے پر مارںل پریس کرنے کے بعد دوبارہ اسے اٹھائیں اور مسالے پر نیرو ڈالی کر کرنڈی (مستری کا اوزار) سے اس مسالے میں دوبارہ لائنیں سی لگائیں، اور پھر ماربل فکس کردیں۔

مساکے پر نیرو ڈال کر ماربل فکس کردینے سے مسالے میں خلاء VOIDS رہ جاتے ہیں اور ایک وقت آنے پر ان وائڈز کی وجہ سے ماربل کھڑک جاتا ہے، جبکہ پہلے ماربل سے مساکے کو پریس کرنے اور اس میں لکیریں ڈالنے سے یہ وائڈز ختم ہوجاتے ہیں۔

ماربل لگانے کے ساتھ ساتھ ہی مستری گیلا فوم پاس رکھے اور ساتھ ساتھ لگا ہوا ماربل صاف کرتا جائے، اور شام کو چھٹی کرنے سے پہکے دن بھر میں جتنا بھی ماربل لگا ہو اس میں مرمت (دو ماربل کے پیسز کے درمیان درزیں بھرنا) لگا کر جائے، مرمت کے لیے جہاں کالے رنگ کا ماربل یا پٹی ہو وہاں اسی رنگ کی مرمت اور سفید ماربل کے لیے سفید سیمنٹ پانی میں گھول کر وائپر کی مدد سے اچھی طرح فرش پر بچھا دیں۔

مستری حضرات یہ طریقہ اس لیے نہیں اپناتے کیونکہ اس طریقے سے انکی پراگریس نہیں نکلتی، وقت زیادہ لگتا ہے، صفدر اینڈ سنز کنسٹرکشنز نے اپنے 35 سالہ کیرئیر کے دوران کسی بھی پراجیکٹ پر ماربل ٹھیکے پر نہیں لگوائی بلکہ ہمیشہ ماربل کا کام دیہاڑی پر کروایا جاتا ہے، تاکہ کام کرنے والے کاریگر کی توجہ کام پر ہو پراگریس نکالنے پر نہیں۔

سیلنگ کے کام میں کی جانے والی احتیاطیں۔

اگر چھتوں پر سیلنگ کا کام کرانا ہو تو چھتیں پلستر مت کرائیں کیونکہ چھتوں پر پلستر کا اہم ترین کام شٹرنگ کی بدصورتی کو چھپانا ہے جو سیلنگ میں ویسے ہی چھپ جائیگی، اس طرح مٹیریل اور لیبر دونوں کی بچت کرسکتے ہیں۔

جب تک چھت یا دیواریں خشک نہ ہو جائیں سیلنگ کا کام مت شروع کریں۔

پلاسٹک آف پیرس والی سیلنگ نمی والی جگہ کے لیے بالکل موزوں نہیں بلکہ خطرناک ثابت ہوتی ہے لہذا جہاں مستقل نمی ہو وہاں پلاسٹک آف پیرس والی سیلنگ کا کام مت کرائیں۔

سیلنگ کا کام کرتے وقت خود چیک کریں کہ سلینگ والے نے لیول تو ٹھیک کیا ہے اس میں فرق تو نہیں کیونکہ فرق ہونے کی صورت میں یہ فنشنگ میں واضح ہو کر سامنے آجائیگا، نیز سیلنگ کی پلیٹس بھی لیول میں ہوں ان میں ڈھلک نہ ہو، اگر سیلنگ والا یہ جواز دے کے یہ رنگ کے کام میں کور ہوجائیگا تو فورا سمجھ جائیں کہ وہ رانگ نمبر ہے، کیونکہ ڈھلک کبھی بھی پٹین (رنگ کا آئٹم) میں کور نہیں ہوتی۔

سیلنگ کا کام اچھا اور لیول میں ہو تو پٹین صرف جوڑ وغیرہ بھرنے کے کام آتی ہے۔

ایک اہم غلطی جو سیلنگ والے کرتے ہیں کہ پیسے بچانے یا اپنی نااہلی سے چھت میں اسٹیل کے کیل ٹھونک کر سیلنگ کی سپورٹیں لگا لیتے ہیں، یہ طریقہ انتہائی نامناسب اور خطرناک ہے، اسٹیل کا کیل وقت طور پر سیلنگ کی پلیٹس کو اٹھا لیتا ہے لیکن بعد ازاں یہ کمزور ہو کر پلیٹس گرانے لگتا ہے، لہذا سیلنگ والے کے ساتھ پہلے زبان طے کریں کہ وہ چھت میں ڈرل مشین سے کم از کم ڈیڑھ انچ سوراخ کرکے پیچ والے نٹ اور راول بولٹ لگائے گا اور ان سے اپنی سپورٹیں باندھے گا۔

سپورٹ بھی زیادہ سے زیادہ 15 انچ دور ہونی چاہیئے اس سے زیادہ ہرگز نہ ہو، اور اس سے جتنے کم فاصلے پر ہو اتنا اچھا ہے۔

ایک اہم مسئلہ جو سیلنگ کے کام کے بعد مالک اور سیلنگ ٹھیکیدار میں بنتا ہے وہ ہے پیمائش اور بل کا۔

سیلنگ میں مختلف قسم کے ڈیزائن ہوتے ہیں تو سیلنگ والے ایک اصلاح استعمال کرتے ہیں پھیتا توڑنا، یعنی جہاں ڈیزائن ہوگا وہ ڈیزائن کے اندر سے بھی پیمائش کریں گے یوں پیمائش بڑھ جاتی ہے، مثلا 10 ضرب 10 کمرے کی یوں تو پیمائش 100 فٹ بنے گی لیکن اگر پھیتا توڑا جائے اور عام سا ڈیزائن بھی ہو تو یہ 11 ضرب 11 پر 121 پر جا پہنچے گی، لہذا کام شروع کرنے سے پہلے یہ زبان کرلیں کہ آیا سیلنگ والا پیمائش سیدھی سیدھی کرے گا یا پھیتا توڑ کر۔

اسی طرح سیلنگ کے بہت سے ڈیزائن ایسے ہیں جن میں کام مکمل ہونے کے بعد بارڈر الگ سے لگتا یے تو کیا بارڈر کی الگ سے پیمائش ہوگی یا وہ بھی بیچ میں ہی گنا جائیگا۔

امید ہے کہ پوسٹ پسند آئی ہوگی  اپنی حتی الوسع کوشش کے ساتھ آپ کو کنسٹرکشن کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ہے جو کہ آپ کے لیے فائدہ مند ہوگی۔

Visits: 3495

likeheartlaughterwowsadangry
0
 

2 thoughts on “Read this before construction of House in Pakistan”

  1. These are very useful guidelines, that can be helpful in any construction project either it is commercial or domestic. Great efforts, thanks for all.
    Regards

     

Leave a Reply

Download document

Enter your email before downloading this document

Compare

× Send Whatsapp message to Admin Waqar Satti